بچوں کی تربیت کا حکم

میرا سوال یہ ہے کہ کچھ دوست بتاتے ہیں کہ بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت والدین پر صرف سات سال کی عمر تک فرض ہے سات سال کے بعد ان پر فرض نہیں ، اور کہتے ہیں اس معاملہ پر کوئی حدیث بھی نہیں ہے۔ میری رہنمائی فرمادیں کیا ایسی کچھ احادیث ہیں؟ اور اگر والدین ساری عمر بچے کی تربیت کریں سارے کام کریں تو اس بارے میں کون سی احادیث ہیں؟ اس کی مثال دے دیجیے، اور آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں اپنا جواب بھی بتادیجیے۔ بارک اللہ 

شریعت کے اصولوں کے مطابق اولاد کی تربیت و پرورش کرنااور، ان کو فرائض و واجبات، حلال و حرام کی دینی تعلیم دینا والدین پر فرض ہے، اسی طرح اگر اولاد کا اپنا مال موجود نہ ہوتو لڑکے کا خرچہ بالغ ہونے تک اور لڑکی کا نفقہ اس کی شادی ہوجانے تک باپ پر لازم ہے، یہ بات صحیح نہیں  کہ بچے کی تعلیم و  تربیت صرف سات سال تک والدین پر فرض ہے اس کے بعد نہیں،بلکہ تربیت کی اصل عمر ہی سات سال سے شروع ہوتی ہے ،چنانچہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ  بچوں کی عمر جب سات سال مکمل ہوجائے تو پھران کی دینی تعلیم کی ابتداء کرنا واجب ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ اس بارے میں کوئی حدیث نہیں۔ قرآن وحدیث میں اولاد کی دینی تربیت کا فرض ہونا واضح مذکور ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے"يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْ٘ا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰٓئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا٘ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ(الحشر: 6)"ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنےگھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے کسی حکم میں اس  کی نافرمانی نہیں کرتے،اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔اس آیت کی تفسیر میں حضرت علی کرم اللہ وجہ سے  یہ مروی ہے عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه، في قوله عز وجل: {قوا أنفسكم وأهليكم نارا} قال: علموا أنفسكم وأهليكم الخير.(المستدرك للحاكم، كتاب التفسير، تفسير سورة التحريم)جہنم سے بچانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو تعلیم دو اور   ادب سکھاؤ۔آپﷺ کا فرمان  ہے": مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها، وهم أبناء عشر وفرقوا بينهم في المضاجع".(سنن أبي داؤد، كتاب الصلاة، باب متى يؤمر الغلام بالصلاة)ترجمہ: اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کے ہوجائیں  اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو ان کو  نماز نہ پڑھنے پر  مارو اور ان کے بستر علیحدہ علیحدہ کردو(یعنی ایک بستر پر ایک ساتھ نہ سلاؤ)۔

 حدیث شریف میں آیا ہے"عن جابر بن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لأن يؤدب أحدكم ولده خير له من أن يتصدق كل يوم بنصف صاع".(شعب الإيمان، حقوق الأولاد والأهلين)ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنی اولاد کو ادب سکھائےیہ بہتر ہے اس سے کہ وہ ہر روز نصف صاع صدقہ کرے۔ 

ایک حدیث میں آیا ہے"أنس بن مالك يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أكرموا أولادكم وأحسنوا أدبهم.(سنن ابن ماجه، باب بر الوالد، والإحسان إلى البنات)ترجمہ: آپ ﷺ نے فرمایا اپنی اولاد کا اکرام کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔

ایک اور حدیث میں آیا ہے" عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ، أنهم قالوا يا رسول الله: قد علمنا حق الوالد على الولد، فما حق الولد على الوالد؟ قال: " أن يحسن اسمه، ويحسن أدبه.(شعب الإيمان،حقوق الأولاد والأهلين)ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین نے عرض کیا:یارسول اللہ اولاد کے ذمہ والدین کے جو  حقوق  ان کو  ہم نے جان لیا، والدین  کے ذمہ اولاد کے   کیا حقوق ہیں؟آپ ﷺنے فرمایا: ان کا  نام اچھا رکھو اور اس کی اچھی تربیت کرو ۔

 ایک اور حدیث میں آیا ہے"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أنه سمع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "كلكم راع، ومسؤول عن رعيته، فالإمام راع، وهو مسؤول عن رعيته، والرجل في أهله راع، وهو مسؤول عن رعيته، والمرأة في بيت زوجها راعية، وهي مسؤولة عن رعيتها، والخادم في مال سيده راع، وهو مسؤول عن رعيته". فكلكم راع، وكلكم مسؤول عن رعيته".(الصحيح البخاري،كتاب الاستقراض، باب العبد راع في مال سيده، ولا يعمل إلا بإذنه)ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے انہوں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناتم میں سے ہر ایک نگران ہے اور  ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، حاکم نگران ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور آدمی اپنے گھر والوں پر نگران ہے اس سے اس کے گھر والوں کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگران ہے اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے آقا کے مال پر نگران ہے اس سے اس نگرانی کے بارے میں پوچھا جائے گا،پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

  ایک اور حدیث میں آیا ہے"عن عمرو بن دينار، عن سالم، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما نحل والد ولدا أفضل من أدب حسن (المعجم الکبیر للطبرانی ،سالم عن ابن عمر)ترجمہ:آپ ﷺ نے فرمایا : کوئی باپ اپنی اولاد کو ا چھے آداب  سے بہتر تحفہ نہیں دے سکتا۔

 ایک اور حدیث میں آیا ہے"عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له ثلاث بنات، أو ثلاث أخوات، أو ابنتان، أو أختان، فأحسن صحبتهن، وصبر عليهن، واتقى الله فيهن، دخل الجنة.(مسند حميدي،أحاديث أبي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه)ترجمہ:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس شخص کی تین بیٹیاں  یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں وہ ان کی اچھی تربیت کرے،اور ان کے ساتھ نرمی و صبر  سے پیش آئے ،اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتارہے تو ایسا شخص جنت میں داخل ہوگا۔

 اسی طرح ایک حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں" عقبة بن عامر يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من كان له ثلاث بنات فصبر عليهن، وأطعمهن، وسقاهن، وكساهن من جدته كن له حجابا من النار يوم القيامة(سنن ابن ماجۃ ،باب بر الوالد، والإحسان إلى البنات) ترجمہ:حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کے ساتھ نرمی و صبر  سے پیش آئے،ان کےکھانے پینے کا بندوبست کرے اور اپنی استطاعت  کے مطابق ان پر  خرچ کرے تو قیامت کے دن یہ  اس کے لیے آگ سے ڈھال  ہوں گی۔

أقول: إنما جمع بين الأمر بالصلاة، والفرق بينهم في المضاجع في الطفولية تأديباً ومحافظة لأمر الله كله؛ لأن الصلاة أصلها وأسبقها، وتعليماً لهم بين الخلق، وأن لا يقفوا مواقف التهم، فيتجنبوا محارم الله كلها.(شرح المشكاة للطيبي،  كتاب الصلاة)

وأوجب الفقهاء على الآباء والأمهات تعليم الصغار قال النووي: على الآباء والأمهات تعليم أولادهم ما سيتعين عليهم بعد البلوغ، فيعلمه الولي الطهارة والصلاة والصوم ونحوها، ويعرفه تحريم الزنا واللواط والسرقة وشرب المسكر والكذب والغيبة وشبهها، ويعرفه أن بالبلوغ يدخل في التكليف، ويعرفه ما يبلغ به، وقيل: هذا التعليم مستحب، والصحيح وجوبه، وهو ظاهر نص الشافعي. ودليل تعليم الأولاد الصغار قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا}وحديث ابن عمر رضي الله تعالى عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته. وقد صرح الفقهاء بأن وجوب تعليم الصغار يبدأ بعد استكمال سبع سنين، لحديث: مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر، وفرقوا بينهم في المضاجع.(الموسوعة الفقهية الكويتية، حرف الطاء، وقت طلب العلم)

(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف. اهـ. ح وتمام الحديث «وفرقوا بينهم في المضاجع» رواه أبو داود والترمذي، ولفظه «علموا الصبي الصلاة ابن سبع، واضربوه عليها ابن عشر» وقال حسن صحيح، وصححه ابن خزيمة والحاكم والبيهقي. اهـ. والظاهر أن الوجوب بعد استكمال السبع والعشر بأن يكون في أول الثامنة والحادية عشر كما قالوا في مدة الحضانة(قوله: قلت إلخ) مراده من هذين النقلين بيان أن الصبي ينبغي أن يؤمر بجميع المأمورات وينهى عن جميع المنهيات.(ردالمحتار على الدرالمختار، كتاب الصلاة)

 06 دسمبر 2024ء

فتوی نمبر : 8266