• ٱلْخَمِيس‎ 10 ربیع الاول 1447 هـ
Print

ٹک ٹاک کی کمائی کا حکم

ٹک ٹاک پر شرعی اعتبار سے حلال کانٹینٹ اپلوڈ کر کے پیسے کمانے کا کیا حکم ہے ۔براۓ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

واضح رہے کہ ٹک ٹاک ایک ٹول ہے جس کا جائز اور ناجائز دونوں طرح سے استعمال ممکن ہے ،لیکن آج کل  ٹک ٹاک ایپ کے استعمال میں زیادہ تر غیر شرعی کاموں (جیسے نامحرم کی تصاویر٬ ویڈیوز٬ میوزک٬ فحاشی پھیلانے اور غیر شرعی طنز و مزاح وغیرہ) کا ارتکاب کیا جاتا ہے٬ اس لئے ایسے کاموں کے لیے اس کا استعمال اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی قطعاً ناجائز اور حرام ہے٬البتہ اگر کوئی شخص غیر شرعی امور سے بچتے ہوئے دعوتی مقاصد٬ دینی بیانات٬ نظمیں اور تلاوت قرآن وغیرہ کے لیے اس کا استعمال کرے٬ تو اس کی گنجائش ہے۔لیکن اس صورت میں بھی تمام ناجائز امور سے بچنا اس کےلیے لازم ہوگا جو کہ موجودہ صورت حال میں بہت مشکل ہے،نیز شرفا کے نزدیک بذات خود اس ایپ کو اچھا نہیں سمجھا جاتا لہذا اجتناب بہتر ہے۔

پھر اس کے ذریعے پیسے کمانے کے مختلف طریقے ہیں  جن میں سے ایک طریقہ  جو  سوال میں مذکور ہے کہ  آپ کوئی ویڈیو بنا کر ٹک ٹاک پر اپلوڈ کریں پھر  ٹک ٹاک اس ویڈیو کی کارگردگی مثلاً لائکس،ویوز اور شیئرز کی بنیاد پر پیسہ دیتا ہے، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ ویڈیوز ناجائز امور(موسیقی،جاندار کی تصویر،نامحرم کی تصویر  وغیرہ) سے  پاک ہو تو اس سے حاصل ہونے والی کمائی اگرچہ جائز ہے،لیکن جب کوئی ویڈیو اپلوڈکی جاتی ہے تو عام طور پرایپ کی طرف سے ویڈیو کے ساتھ اشتہار بھی چلائے جاتے ہیں ،اور بعض اوقات اکاؤنٹ ہولڈرز  خود مختلف چیزوں،کاروبار وغیرہ کے اشتہارات چلا کر پیسے کماتے ہیں اور  اشتہارات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ  تو اس میں  اگر درج ذیل امور کی رعایت رکھی جائے تو اس سے حاصل ہونے والی آمدن بھی جائز ہوگی۔

1۔اشتہار بذات خود بھی ناجائز مواد (نامحرم کی تصاویر٬ ویڈیوز٬ میوزک٬ فحاشی )سے خالی ہوں ۔

2۔جس کاروبار کا اشتہار ہے وہ کاروبار جائز ہو ۔

3۔جس پروڈکٹ یا سروس کا لنک  شامل کیا ہےوہ پروڈکٹ حلال ہو۔

اور مشاہدہ اورتحقیق سےیہ بات سامنےآئی ہےکہ جو اشتہارات ایپ کی طرف سے چلائے جاتے ہیں ان میں  ویڈیوبنانےوالےکواپنی مرضی کا اشتہار چلانے کا اختیارنہیں ہوتا،اورعموماًجواشتہارات چلائےجاتےہیں،اس میں درج بالاشرائط کاخیال نہیں رکھاجاتا،اور اکثراوقات غیرشرعی امورپرمشتمل ہوتےہیں،نیزجس ملک میں وہ ویڈیودیکھی جاتی ہےوہاں پررائج چیزوں کےاشتہارات بھی چلتےہیں،جن میں مندرجہ بالاامورکی پاسداری تقریباًناممکن ہوتی ہے،لہذااس کےذریعےحاصل ہونےوالی کمائی سےاجتناب ضروری ہے۔

 اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.(النور:19)

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ.[لقمان: 6]
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من حسن إسلام المرء تركه ما لا يعنيه.(سنن ابن ماجۃ:کتاب الفتن،باب كف اللسان في الفتنة)
"ولكن معظم استعمال التلفزيون في عصرنا في برامج لاتخلو من محظور شرعي، وعامة المشترين يشترونه لهذه الأغراض المحظورة من مشاهدة الأفلام والبرامج الممنوعة، إن كان هناك من لا يقصد به ذلك. فبما أن غالب استعماله في مباح ممكن فلا نحكم بالكراهة التحريمية في بيعه مطلقا، إلا إذا تمحض لمحظور، ولكن نظرا إلى أن معظم استعماله لا يخلو من كراهة تنزيهية . وعلى هذا فينبغي أن يتحوط المسلم في اتخاذ تجارته مهنة له في الحالة الراهنة إلا إذا هيأ الله تعالی جوا يتمحض أو يكثر فيه استعماله المباح".(فقہ البیوع: (325/1، مکتبۃ المعارف)

 23 جنوری 2025ء

فتوی نمبر : 8271


  1. عقائد و ایمانیات
  2. عبادات
  3. معاملات
  4. علوم
  5. مغربی افکار و نظریات
  6. میڈیا اور ٹیکنالوجی
  7. تصوف و احسان
  8. حظر و اباحت (جائز و ناجائز)
  9. ہبہ ، ہدایا و تحائف
  10. اوقاف
  11. وصیت و میراث
  12. علاماتِ قیامت
  13. متفرق
  14. تحریکی و فکری مسائل
  15. حالات حاضرہ
  16. بین الاقوامی مسائل

ہفتہ وار شمارے کے لئے سبسکرائب کریں