• ٱلْأَحَد 1445 هـ
Print

درزی کے پاس بچ جانے والے کپڑے کا حکم

 درزی کے پاس جو گاہک کے کپڑے بچ جاتے ہیں اور گاہک کوبھی یہ پتا ہوتا ہے لیکن وہ واپسی کا مطالبہ نہیں کرتے یا  کچھ لوگ کپڑے سلواتے ہیں لیکن واپس نہیں لے جاتے کبھی زیادہ وقت بھی گزرجاتاہے ایسی صورت میں ان کپڑوں کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے یانہیں۔ یاکسی غریب کودینا ضروری ہے؟

(1)جو کپڑا درزی کو سلوانے کے لیے دیا جاتا ہے  وہ کپڑا سلوانے والے  کی  ملکیت ہوتا ہے، اور درزی کے ہاتھ میں امانت ہوتا ہے، سلائی کے بعد بچ جانے والا کپڑاسلوانے والے کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھ لینادرزی کے لیے شرعاً جائز نہیں،درزی پر لازم ہے کہ وہ سلا ہوا کپڑا دیتے وقت سلوانے والے کو  بچ جانے والے کپڑے کے بارے میں  اطلاع کرے، بتانے کے بعد اگرکپڑے کا مالک  صریح اجازت دے دے یا واپسی کا مطالبہ نہ کرے تو یہ اس کی طرف سے اجازت کے حکم میں ہو گا، ایسی صورت میں  درزی  بچ جانے والا کپڑا   اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ 

(2)اگر مالک اپنے  سلے ہوئے کپڑے واپس لینے نہ آئے تو اولاً درزی پر لازم ہے کہ اس سے فون وغیرہ کے ذریعےرابطہ کر کے اس کو کپڑے لے جانے کو کہے، اگر پھر بھی وہ شخص  کپڑا لینے نہ آئےیا رابطے کی کوئی صورت   نہ ہو، اور درزی کے لیے مالک  تک کپڑے پہنچانے کی کوئی صورت نہ ہو تو ایسی صورت میں اتنا انتظار کرنا لازم ہے کہ غالب گمان ہو جائے کہ اب مالک کپڑے لینے نہیں آئے گا، پھر جب اس قدر عرصہ گزر جائے کہ مالک کے واپس آنے کا امکان ختم ہو جائے تو ایسی صورت میں درزی کے لیے جائز ہے کہ وہ کپڑے  کسی فقیر کو مالک کی طرف سے صدقہ کر دے،اگر درزی خود فقیر ہوتو  خود استعمال کرسکتاہے، اگر بعد میں کسی وقت مالک کپڑا لینے آجائے تواس کو اس کے کپڑے  صدقہ کرنے کے بارے میں بتا دیاجائے،اگر مالک نے اس صدقہ کی اجازت دے دی تو ٹھیک ہے ورنہ کپڑے کاضمان درزی کو اپنی طرف سے اداکرناپڑے گا۔

اگر درزی رسید پر لکھ دے کہ اتنی مدت میں کپڑےواپس  لے جانا ضروری ہے،اس مدت کے بعد ہم آپ کے  کپڑے کے ذمہ دار نہیں ہو ں گے،بلکہ اس کو بیچ کر سلائی کی اجرت وصول کی جائے گی، بقیہ رقم صدقہ کر دی جائے گی، تو ایسی صورت میں اگر مالک مقررہ مدت تک نہ آئے تو درزی کو اختیار ہو گا کہ وہ اس کپڑے  کو بیچ کر اپنی اجرت کے بقدر  رقم وصول کر لے اور بقیہ رقم صدقہ کر دے۔ ایسی صورت میں اگر اس کے بعد     مالک  آ گیا تو درزی  پر   کوئی ضمان لازم نہیں  ہو گا۔  

(الأجراء على ضربين: مشترك وخاص، فالأول من يعمل لا لواحد)كالخياط ونحوه...(ولا يضمن ما هلك في يده وإن شرط عليه الضمان)؛ لأن شرط الضمان في الأمانة باطل كالمودع (وبه يفتى) كما في عامة المعتبرات، وبه جزم أصحاب المتون فكان هو المذهب خلافا للأشباه.(الدر المختار وحاشیة ابن عابدین کتاب الإجارۃ،باب ضمان الأجير)

(فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه، إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال) تتارخانية. وفي القنية: لو رجى وجود المالك وجب الإيصاء.(فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها(أو تضمينه).(الدر المختار مع حاشیة ابن عابدین:كتاب اللقطة)

أما مدة التعريف: فيختلف قدر المدة لاختلاف قدر اللقطة إن كان شيئا له قيمة تبلغ عشرة دراهم فصاعدا يعرفه حولا، وإن كان شيئا قيمته أقل من عشرة يعرفه أياما على قدر ما يرى. وروى الحسن بن زياد عن أبي حنيفة أنه قال: التعريف على خطر المال إن كان مائة ونحوها عرفها سنة، وإن كان عشرة ونحوها عرفها شهرا، وإن كان ثلاثة ونحوها عرفها جمعة أو قال عشرة، وإن كان درهما ونحوه عرفه ثلاثة أيام، وإن كان دانقا ونحوه عرفه يوما، وإن كان تمرة أو كسرة تصدق بها.(بدائع الصنائع: كتاب اللقطة، فصل في بيان ما يصنع باللقطة) 

 16 دسمبر 2024ء

فتوی نمبر : 8416


  1. عقائد و ایمانیات
  2. عبادات
  3. معاملات
  4. علوم
  5. مغربی افکار و نظریات
  6. میڈیا اور ٹیکنالوجی
  7. تصوف و احسان
  8. حظر و اباحت (جائز و ناجائز)
  9. ہبہ ، ہدایا و تحائف
  10. اوقاف
  11. وصیت و میراث
  12. علاماتِ قیامت
  13. متفرق
  14. تحریکی و فکری مسائل
  15. حالات حاضرہ
  16. بین الاقوامی مسائل

ہفتہ وار شمارے کے لئے سبسکرائب کریں